دل نے جو یہ غم و آلام چھپا رکھا ہے
دل نے جو یہ غم و آلام چھپا رکھا ہے
غزل
دل نے جو یہ غم و آلام چھپا رکھا ہے
اک الگ شور دروں اس نے مچا رکھا ہے
منہدم کر کے مکاں عارضی میرا یاروں
دل میں گھر اپنے کئی اس نے بنا رکھا ہے
خانۂ دل میں ترے نام کا میرے دلبر
اک حسیں تاج محل میں نے بنا رکھا ہے
نیند آتی نہیں راتوں کو مجھے اب اکثر
میرے اک خواب نے نیندوں کو چرا رکھا ہے
لوگ کوشاں ہیں بجھانے کو بڑے عرصے سے
جو دیا میں نے محبت کا جلا رکھا ہے
عشق شاید کبھی محبوب مرا سمجھے گا
بس فقط دل نے یہی آس لگا رکھا ہے
جان بس خوبرو چہروں پہ لٹا کر کے اب
حسن کا لوگوں نے معیار گرا رکھا ہے
بس وہی ہوگا مقدر کا سکندر اظہر
داؤ جس نے بھی یہاں تجھ پہ لگا رکھا ہے
محمد اظہر شمشاد
جامعہ ملیہ اسلامیہ
8436658850
Pingback: شرپسندوں سے دوستی کیسی ⋆ سبطین رضا شاہی