سنی خانقاہی مسلمانوں میں باہمی اتحاد کی ضرورت اور آل انڈیا علما و مشائخ بورڈ کی اہمیت

Spread the love

سنی خانقاہی مسلمانوں میں باہمی اتحاد کی ضرورت اور آل انڈیا علما و مشائخ بورڈ کی اہمیت

شہباز چشتی مصباحی

ضلع اتر دیناج پور، مغربی بنگال

ہندوستان کے بدلتے ہوئے سیاسی و سماجی حالات میں سنی خانقاہی بشمول بریلوی مسلمانوں کے سامنے سب سے بڑا چیلنج قیادت کا بحران ہے۔ امت انتشار کا شکار ہے، اور ہر گروہ اپنی محدود سوچ کے دائرے میں مقید ہے۔

ایسے وقت میں ملت سنیہ کو ایک ایسے رہنما اور پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جو حد بندیوں سے بالاتر ہو کر قومی سطح پر سنی مسلمانوں کی نمائندگی کر سکے۔

یہی کردار آل انڈیا علما و مشائخ بورڈ اور اس کے بانی و قائد حضرت اشرفِ ملت مولانا سید محمد اشرف کچھوچھوی دامت برکاتہم العالیہ نے ادا کیا ہے، جنہوں نے ہمیشہ افہام و تفہیم، مکالمے اور صوفیانہ حکمت کے ذریعے ملت کے مفاد میں کام کیا، اور ایک ایسا راستہ دکھایا جو تصادم نہیں، بلکہ تعمیری رابطے اور عملی و مکالماتی سیاست پر مبنی ہے۔

حضرت اشرفِ ملت نے برسوں قبل اس حقیقت کو بھانپ لیا تھا کہ ہندوستان جیسے جمہوری و تکثیری ملک میں مسلمانوں کے مسائل کا حل محاذ آرائی نہیں، بلکہ حکومت کے ساتھ مکالمے اور تعمیری رابطے میں پوشیدہ ہے۔ اسی مقصد سے انہوں نے عالمی صوفی کانفرنس کے ذریعے ایک ایسا پلیٹ فارم قائم کیا تھا جو دینی قیادت اور سیاسی نظام کے درمیان ایک مثبت و باوقار رابطے کا ذریعہ بن سکتا تھا۔لیکن افسوس کہ اس وقت کچھ محدود فکری حلقوں نے نہ صرف اس کوشش کو غلط سمجھا، بلکہ اپنی خود ساختہ مسلکی عصبیت میں اسے نقصان پہنچایا۔ اگر اسی وقت حضرت اشرفِ ملت کی بصیرت پر بھروسہ کرتے ہوئے آل انڈیا علما و مشائخ بورڈ (AIUMB) کو مضبوط کیا گیا ہوتا، تو آج حالات بالکل مختلف ہوتے۔مولانا توقیر رضا خاں کا واقعہ اور ہماری بے بسی:آج جب مولانا توقیر رضا خاں جیسے بزرگ عالم، بریلی کی خانقاہی روایت کے نمائندہ راہنما اور اتحاد ملت کونسل کے صدر جیل میں ہیں، تو پوری ملت خاموش ہے۔ کوئی تنظیم، کوئی تحریک، کوئی مذہبی ادارہ ان کی رہائی کے لیے حکومت سے سنجیدہ بات کرنے کی صلاحیت یا حیثیت نہیں رکھتا۔یہ افسوسناک حقیقت اس بات کی گواہ ہے کہ اگر ہم نے ماضی میں آل انڈیا علما و مشائخ بورڈ کو مضبوط کیا ہوتا، تو آج ہمارے پاس ایک ایسا متحدہ، باوقار اور قومی سطح پر تسلیم شدہ پلیٹ فارم ہوتا جو نہ صرف حکومت سے بات کر سکتا بلکہ امت کے مسائل کو مؤثر انداز میں پیش کرنے کی طاقت رکھتا۔حضرت اشرفِ ملت کی حکمت اور صوفیانہ قیادت کی افادیتحضرت اشرفِ ملت نے ہمیشہ زور دیا کہ صوفیانہ قیادت ہی وہ توازن پیدا کر سکتی ہے جو ملت کو انتہاپسندی سے بچا کر قومی دھارے میں باعزت مقام دلا سکتی ہے۔ انہوں نے ملک کے کونے کونے میں صوفی پیغامِ محبت، بھائی چارہ اور قومی یکجہتی کو عام کیا۔ ان کی قیادت میں AIUMB نے نہ صرف دینی مدارس اور خانقاہوں کو جوڑنے کا کام کیا، بلکہ مسلمانوں کو اپنے ملی مسائل کو اپنی آواز مؤثر انداز میں بلند کرنے کا ہنر سکھایا۔ملت کے لیے پیغامِ اتحادآج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب غیر ضروری باہمی اختلافات بھلا کر حضرت اشرفِ ملت کی بصیرت پر اعتماد کریں، آل انڈیا علما و مشائخ بورڈ کے پلیٹ فارم کو مضبوط بنائیں، اور اپنے نوجوانوں کو صوفیا کے مسلکِ عشق و رواداری پر استوار کریں۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے مسلمانوں کی آواز سنی جائے گی، اور ایسے واقعات — جیسے مولانا توقیر رضا خاں کے ساتھ پیش آئے — دوبارہ نہیں دہرائے جائیں گے۔اللہ تعالیٰ حضرت اشرفِ ملت کے فیوض و برکات کو دراز فرمائے، سنی خانقاہی بشمول بریلوی مسلمانوں کو اتحاد، حکمت اور صوفیانہ بصیرت سے نوازے، آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *