بہار انتخابات میں تبدیلی کی لہر

Spread the love

پس پردہ بہار انتخابات میں تبدیلی کی لہرآنے والے حالات ہمارے لیے مصائب وآلام اور موانع ومشکلات سے بھرے دکھائی دے رہے ہیں

ڈاکٹر غلام زرقانی چیئرمین حجاز فاؤنڈیشن ، امریکہ

بہار میں انتخابی معرکہ آرائی عروج پر ہے ۔ ذرائع ابلاغ سے ملنی والی اطلاعات کے مطابق سیاسی پارٹیوں نےاپنے اپنے طورپر نہایت ہی خوردبینی سے منصوبہ سازی کرلی ہے ۔ بی جے پی نے چالیس افراد پر مشتمل اسٹارپرچارک کی فہرست شائع کی ہے ، جس میں مرکزی وزرا سے لے کر کئی صوبوں کے وزراء اعلیٰ تک شامل ہیں ۔

اسی طرح جنتا دل یونائیڈڈ نے چالیس ، عام آدمی پارٹی نے چالیس ، راسٹریہ جنتا دل نے بھی چالیس افراد پر مشتمل فہرست شائع کی ہے۔ قصہ مختصر یہ ہےکہ صوبہ بہار اس وقت ساری بڑی سیاسی پارٹیوں کی نگاہوں میں ہے، جن کے عمائدین زیادہ سے زیادہ انتخابی علاقوں تک پہنچنے کے لیے کمر کس چکے ہیں ۔ انتخابی اجلاس اور ریلیوں میں حزب مخالف کے امیدواروں پر تنقید کرنے اور ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی پرانی روایت رہی ہے ۔ اس لیے اگر یہ سلسلہ جمہوری روایات تک محدود رہتاتوکوئی مضائقہ نہیں ، لیکن عینی شاہدین اور حاضر سامعین بتاتے ہیں کہ فرقہ پرست طاقتیں منافرت ،عداوت اور معاشرے میں باہمی تعلقات کشیدہ کرنے میں جٹ گئی ہیں ۔ جو امور موضوع سخن بنانے کے لائق نہیں ، انھیں بھی صرف اس لیےباربار دہرایا جارہاہے کہ کسی طرح بھی حالیہ انتخابات دوطبقات کی رسہ کشی میں تبدیل ہوجائے ۔ اب یہی دیکھیے کہ پردہ نشیں خواتین کے لیے مسلم اکثریتی علاقوں میںاگر ایک دوخاتون انتخابی عملہ متعین کردیا جائے ،تو اس میں حرج کیا ہے؟ عام طورپر عملے میں مرد بھی ہوتے ہیں اور عورتیں بھی ۔ اس لیے رائے دہندگی کے لیے آنے والی خاتون کی تفتیش اگر ایک خاتون کرلے، توکون سی آفت سرپر آن پڑے گی؟ تاہم بعض لوگ اپنی فطرت سے مجبور ہوتے ہیں ۔ اُن کے خطابات میں جب تک اقلیتی طبقہ پر طعن وتشنیع نہ ہو، سامعین میں پذیرائی ہوہی نہیں سکتی ۔ بہرکیف، ایسا محسوس ہورہاہے کہ حالیہ انتخاب میں سیکولر ووٹ کم ازکم تین حصوں میں تقسیم ہوجائے گا۔ کچھ مہاگٹھ بندھن ، کچھ جدیو اور کچھ جن سوراج پارٹی کی جھولی میں جائے گا۔ اور اس میں ادنیٰ شک نہیں کہ سیکولر ووٹ کی تقسیم سے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ملی قائدین ہمیشہ یہ اپیل کرتے ہیں کہ کم از کم مسلمان اپنے علاقے میں سیکولر ووٹ کی تقسیم نہ ہونے دیں، لیکن جوشیلے بیانات اوربلند بانگ دعوے ماحول سازی میں سبقت لے جاتے ہیں اور منفی نتائج کے مضراثرات ہمارے سروں پر منڈلانے لگتے ہیں ۔ ٹھنڈے دل سے غور کیجیے کہ ایک ہوتاہے حق اور دوسرا حالات کے تناظر میں بہتر فیصلہ۔ بسااوقات دونوں باہم مربوط ہوتے ہیں ، جس کے آئینے میں فیصلہ کرنا نہایت ہی آسان ہوتاہے ۔ لیکن زیادہ تر حالات میں متذکرہ بالا دونوں پہلو ساتھ ساتھ نہیں ہوتے۔ یہی وہ مرحلہ ہے ، جہاں غور وفکر اور ماضی کے آئینے میں مستقبل کی راہیں متعین کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس حقیقت سے کسے مجال انکار ہے کہ ملک کی آبادی میں مسلمانوں کا جو تناسب ہے ، اس کے مطابق ہمیں سیاست میں حصہ داری نہیں ملتی۔ یعنی سیاسی واجبی حصہ ملناچاہیے ، یہ’’ حق‘‘ ہے ۔ تاہم اس وقت جو زمینی حالات ہیں ، کیا وہ ہمیں متذکرہ بالا’ ’حق‘‘ تک پہنچانے میں معاون ومددگار ثابت ہوسکتے ہیں ؟ جواب یقینا یہی ہوگا کہ یہ وقت مناسب نہیں ہے، بلکہ ایک درجہ آگے بڑھ کر کہیے کہ اگر حکمت ودانائی سے فیصلہ نہ کیا گیا ، توحق تک رسائی کے بجائے حالات ہمارے لیے مزید خراب ہوسکتے ہیں۔ یوپی کی مثال آپ کے سامنے ہے ، جہاں کئی علاقوں میں مسلم ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں ، لیکن ہمارے ووٹ باہم تقسیم ہوجاتے ہیں اور لمبے عرصے تک منفی نتائج کے نقصانات سروں پر منڈلاتے رہتے ہیں۔ اچھا، پھر مجھے ہمیشہ یہ بات ناپسند رہی ہے کہ ہمارے شعلہ بیان عمائدین وہ دعوے کرجاتے ہیں ، جو اُن کے بس میں نہیں ہوتا اور بھولے بھالے عقیدت مند اُن کے بے بنیاد دعووں پر یقین کرلیتے ہیں ۔ اور خیال رہے کہ جوش خطابت کا یہ رنگ صرف ہندوستان میں نہیں ہے ، بلکہ عالم اسلام میں عام طورپر دکھائی دیتاہے ۔ مثال کے طورپر بہار میں ہونے والے حالیہ صوبائی انتخابات کے موقع پر ہمارے جوشیلے مقررین کا یہ کہنا کہ ملک میں مسلمان ستائے جارہے ہیں ، اُن کے گھر مسمار ہورہے ہیں ، اُنھیں سلاخوں کے پیچھے ڈالا جارہاہے ، اس لیے آپ ہمیں ووٹ دیں ۔ دل تھام کر سوچیے کہ صوبائی انتخابات میں دوچار نشستیں لے کر کیا متذکرہ بالا پریشانیاں ختم ہوجائیں گی؟ ٹھیک اِسی طرح یوپی میں ظلم وجبر اور قہر وغضب کے سامنے للکارتے ہوئے یہ کہنا کہ ہم ناانصافی برداشت نہیں کریں گے اور یہ ہرگزہونے نہیں دیں گے۔ ظاہرہے کہ زمام اقتدار جب تک ایسے شخص کے ہاتھوں میں ہو، جسے نہ توقانون کا پاس ہو اور نہ ہی اعلیٰ عدالتوں کی ہدایات کا، اسے آپ کے دھمکی آمیز بیانات اور احتجاجات سے کیا فرق پڑتاہے ؟ بہر کیف، ایسا محسوس ہورہاہے کہ اب کی بار اگر این ڈی اے کی نشستیں خدانخواستہ جدیو سے بہت زیادہ ہوئیں ، توصوبائی حالات ویسے نہیں رہیں گے۔دبی زبان میں بی جے پی کے مرکزی ذمہ داربھی یہی اشارہ کررہے ہیں ۔سابقہ انتخابات کے موقع پر یہ نہیں کہا گیا کہ پارلیامنٹ کے ممبران جسے اپنا نمائندہ تسلیم کریں گے ، اسے وزیر اعظم بنایا جائے گا، بلکہ صاف صاف یہ نعرہ رہاہے کہ نریندرمودی ہی وزیر اعظم ہوں گے ۔ لیکن بہار صوبائی انتخابات کے موقع پر یہ کہنا کہ کامیاب ہونے والے نمائندے جسے اپنا لیڈر منتخب کریں گے ، وہ وزیر اعلیٰ بنایا جائے گا، صاف صاف بتارہاہے کہ کیا کچھ ہونے والا ہے ۔ یہ تسلیم ہے کہ نتیش کمار سے ہمیں جو توقعات تھیں ، وہ پوری نہیں ہوئیں ، خصوصیت کے ساتھ مرکزی حکومت میں شمولیت کی وجہ سے وقف بل، خواتین بل اور یکساں سول کوڈ جیسے حساس مسائل پر جدیو کی حمایت ہمارے لیے نقصان دہ رہی ہے، لیکن صوبہ بہار میں مسلمانوں کے ساتھ جو رویہ رہاہے ، وہ ہزار اختلافات کے باوجود یوپی کے حالیہ حالات سے بہتر رہاہے ۔ اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ حالیہ انتخابات کے نتیجے میں وزیر اعلیٰ کا چہرہ بدلنے والا ہے ۔ مہاگٹھ بندھن کی فتحیابی سے تویقینی طورپر بدلے گا ہی اور اگرخدانخواستہ این ڈی اے کی جیت ہوئی ، جب بھی غالب گمان یہی ہے کہ اب کی بار بی جے پی کویہ موقع ملے گا۔ صاحبو! حالیہ صوبائی انتخابات کے حوالے سے ہوسکے تو رات کی تنہایئوں میں چند گھنٹے خاموشی سے غور کریں اور ماضی کے حالات کے تجربات کے آئینے میں کوئی فیصلہ کریں ۔ جذباتی فیصلے وقتی مسئلے اور عارضی حالات میں بہتر ہوسکتے ہیں ، لیکن لمبے عرصے تک حالات میں بہتری کے لیےعلم وبصیرت ، فکر ونظر اورمتانت و سنجیدگی کے آئینے میں اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ یاد رکھیے کہ موجودہ ناگفتہ بہ حالات ہمیشہ نہیں رہیں گے۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ بڑے بڑے جابر ، ظالم اور فرعون وقت صفحہ ہستی سے مٹ گئے ۔ اورپھر ظلمت وتاریکی کی چوکھٹ پر ہی تواجالالے کی دستک ہوتی ہےنا۔ اس لیے حوصلہ نہ ہاریے ، بلکہ میدان میں ڈٹے رہیے اور وہ فیصلہ کیجیے ، جو ملت اسلامیہ کے روشن مستقبل کے لیے بہترسے بہتر ہو۔ ۲۵؍اکتوبر ۲۰۲۵ء؁ ghulamzarquani@yahoo.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *