ہر گھر تک پانی پہچانے کی مہم
تحریر: ڈاکٹر مظفر حسین غزالی ہر گھر تک پانی پہچانے کی مہم
ہر گھر تک پانی پہچانے کی مہم
پانی قدرت کی نعمت ہے، زندہ رہنے کے لیے ہر جان دارکواس کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہا جا تا ہے ۔ کہ پانی ہے توکل ہے۔
پانی پیدا نہیں کیا جاسکتا البتہ موجود پانی کے ذخائر کی حفاظت اور معقول رکھ رکھاؤ کے ذریعہ لمبے عرصے تک استعمال کیا جا سکتا ہے۔
دھیان دینے کی بات یہ ہے کہ دنیا کی کل آبادی میں | سے صرف 18 فیصد لوگ اور 15 فیصد مویشی بھارت میں رہتے ہیں ۔
ان کے لیے دو فیصد زمین اور چار فیصد میٹھے پانی کے ذخائر ہیں۔
ایک اندازہ کے مطابق 1951 میں 5177 کیوبک میٹر پانی فی شخص دستیاب تھا۔ جو 2011 میں گھٹ کر 1545 کیوبک میٹر رہ گیا
۔ 2019 میں ہی قریب 1368 کیوبک میٹر ریکارڈ کیا گیا۔ مانا جا رہا ہے کہ 2050 میں بھارت کے ہر خص کے لیے 1140 کیوبک میٹر میٹھا پانی رہ جائے گا۔
ملک کی آبادی بڑھنے اور ترقیاتی سرگرمیوں کی وسعت نے پانی کی مانگ میں اضافہ کیا ہے۔ جب کہ پانی کے ذرائع محدود ہیں۔
دوسری طرف پانی کے قدرتی ذرائع ندی، تالاب، پوکھر اور جھیلوں یہاں تک کہ زیر زمین پانی تک کو جان بوجھ کر آلودہ کیا گیا ہے۔
تا کہ پانی کاروبار کی شکل اختیار کر سکے۔ بوتل بند پانی کا چلن اس کا نتیجہ ہے۔ پانی کی کمی اور بڑھتی ما نگ نے پینے لائق پانی کے مسئلہ کواور پیچیدہ بنادیا ہے۔
زیر زمین پانی کی زیادہ کای اورکم واپسی سے پانی کی سیج روز بروزگھٹتی جارہی ہے۔
بے قاعد بارش، قلیل زخیرہ اندوزی ،موسمیات کی تبدیلی اور پانی میں کثیف عناصر کی موجودگی نے حالات کو اورسنگین بنادیا ہے۔
ملک کا بڑا حصہ خاص طور پرگاؤں کے لوگ صاف پانی سے محروم ہیں ۔ اس کی وجہ سے دیہی بھارت طرح طرح کی بیماریوں سے جوجھ رہا ہے ۔
گاؤں کے ہر گھر کو صاف پانی دستیاب کرانے کے لیے 2019 میں حکومت نے” جل جیون مشن شروع کیا میشن کے آغاز کے وقت ملک کے 20.19 کروڑ دیہی گھرانوں میں سے صرف 23.3 کروڑ 17 فیصد کو نلکے کے پانی تک رسائی حاصل تھی ۔
کوڈ – 19 وبائی امراض سے تحفظ کے لیے لگائے گیے لاک ڈاؤن کی وجہ سے مشن کی رفتار دھیمی رہی مگر دشواریوں کے باوجود کام جاری رہا
میشن کے آغاز سے اب تک 44.5 کروڑ 31.28 فیصد گھرانوں کوٹل کا پانی فراہم کیا جا چکا ہے۔
اس وقت 67.8 کروڑ 15.45 فیصد دیہی گھرانوں کونل کا پانی فراہم کیا گیا ہے۔
گوا، تلنگانہ، انڈمان اور نکوبار جزائر، دادر اور نگرحویلی اور دمن اینڈ دیو، پڈوچیری اور ہریانہ میں ہر گھر جل پہنچ گیا ہے ۔
حکومت کے دعویٰ کے مطابق ان ریاستوں اور مرکز کے زیرانتظام علاقوں کے تمام دیہی گھرانوں کو نل کا صاف پانی فراہم ہورہا ہے۔
مگر میوات کے علاقہ میں لوگوں کو ہیومن ویلفیر فاونڈیشن ( این جی او) پینے کا صاف پانی فراہم کر رہی ہے۔
مرکزی حکومت میں ایڈیشنل سیکرٹری اورمشن ڈائر یکٹر بھرت لال کا کہنا ہے کہ 4 5لاکھ دیہاتوں میں وی ڈبلیوایس کی یاداٹر کمیٹیاں تشکیل دی جا چکی ہیں
اور 7.3 3 لاکھ گاؤں کے لیے ایکشن پلان تیار کیے گئے ہیں۔ فیلڈ ٹیٹ کٹس
( FTKS)
کا استعمال کرتے ہوۓ پانی کے معیارکو جانچنے کے لیے 5.8لاکھ سے زیادہ خواتین رضا کاروں کو تربیت دی گئی ہے۔
وہ نمونے جمع کرتی ہیں اور اس کے معیار کی جانچ کرتی ہیں تا کہ یقینی بنایا جاسکے کہ فراہم کردہ پانی مقرہ معیار کے مطابق ہے۔
ایف ٹی کے کی ٹیسٹ رپورٹ ہے جے ایم پورٹل پر اپ لوڈ کی گئی ہے۔ آج ملک میں پانی کی جانچ کرنے والی 2000 سے زیادہ لیبارٹریز ہیں جو معمولی قیمت پر پانی کے معیار کو جانچنے کے لیے عوام کے لیے کھلی ہیں۔
جل جیون مشن کے تحت پانی کی قلت والے علاقے غیر معیاری پانی والے گاؤں خواہش مند اضلاع ،ایسی سی / ایس ٹی اکثریت والے گاؤں اور پارلیمنٹ آدرش گرام یوجنا کے تحت دیہاتوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔
جے ای اے ای ایس سے متاثرہ اضلاع میں نل سے پانی کی فراہمی 18 لاکھ یعنی 3 فیصد گھروں سے بڑھ کر 19.1 گریڈ 38.39 فیصد گھروں میں ہوگئی ہے خواہش مند اضلاع میں یہ 24لاکھ یعنی 7 فیصد گھروں سے بڑھ کر 28.1 کروڑ 38 فیصد ہوگئی ہے۔ اس مہم میں پر تیزی آنی چاہیے کیوں کہ پانی سب کی ضرورت ہے۔
ملک بھر کے اسکولوں پرم شلاؤں آنگن باڑی مراکز میں بچوں کو محفوظ نل کے پانی کویقینی بنانے کے لیے وزیراعظم جناب نریندرمودی نے 100 دن کی مہم اعلان کیا جس کا آغاز مرکزی وزیر جناب گجیندرسنگھ شیخالت نے 2 اکتوبر 2020 کوگیا تھا۔
ان مراکز میں دستیاب پانی بچے اساتذ پینے دوپہر کا کھانا پکانے ہاتھ دھونے اور بیت الخلاء کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اب تک 33.8 لاکھ 38.81 فیصد اسکولوں اور 76.8 لاکھ 48.78 فیصد آنگن باڑی مراکزکوان کے احاطے میں نل کا پانی فراہم کیا گیا ہے۔
انڈمان و نکوبار جزائر، آندھرا پردیش درانگر حویلی ورڈن اینڈ دید گوا، گجرات ،ہریانہ ہماچل پردیش، جموں و کشمیر، کرناٹک کیرل پڈوچیری، پنجاب، سکم ،تمل ناڈو، تلنگانہ اور اتراکھنڈ کی ریاستیں مرکز کے زیرانتظام علاقوں کے تمام اسکولوں میں نل کے پانی کی فراہمی کویقینی بنایا گیا ہے۔
تحریر: ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
ماخوذ : روزنامہ ہندوستان ممبئی 28.دسمبر 2921
ان مضامین کو بھی پڑھیں
تحریر میں حوالہ چاہیے تو تقریر میں کیوں نہیں
ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی
مذہبی مخلوط کلچر غیرت دین کا غارت گر
قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی
عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات
سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن
قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی
اتحاد کی بات کرتے ہو مسلک کیا ہے
افغانستان سے لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں
مہنگی ہوتی دٓاوا ئیاںلوٹ کھسوٹ میں مصروف کمپنیاں اور ڈاکٹرز
۔ 1979 سے 2021 تک کی آسام کے مختصر روداد
کسان بل واپس ہوسکتا ہے تو سی اے اے اور این آر سی بل کیوں نہیں
ہوائی جہاز ٹکٹ آن لائن بک کرتے ہوے کیسے بچت کریں
ہندی میں مضامین کے لیے کلک کریں
Pingback: ریڑھ کی ہڈی میں درد اور وزن میں کمی ریڑھ کی ٹی بی کی علامت ⋆ ڈاکٹر سشیل کمار