رہنماؤں کی بے توجہی سے اساتذہ پریشان، خطرے میں اردو زبان ی بے توجہی سے اساتذہ پریشان، خطرے میں اردو زبان ر
رمضان کے مہینہ میں اساتذہ پریشان، ہماری زبان اردو بھی خطرے میں، ہمارے رہنماؤں کو پوری بیداری کا ثبوت پیش کرنا ہوگا، اساتذہ تو ایک مالی کی طرح ہے جو اپنے فصل کی آبیاری کرتا ہے، اصل محافظ تو آپ ہیں
محمد رفیع
7091937560
rafimfp@gmail.com
رحمت، برکت اور مغفرت کا مہینہ رمضان المبارک عبادت و ریاضت کا ہوتا ہے۔ جس کا اصل مقصد تقویٰ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ عام مسلمان اس مہینہ کی عظمت کا پورا خیال کرتے ہیں۔ مہینہ کے پورے تیس روزے رکھتے ہیں اور تراویح کی نماز جوش و خروش کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ عام مسلمان اس مہینہ میں لغویات سے پاک ہو کر اللہ تعالیٰ کی رضامندی و خوشنودی حاصل کرنے کے لئے تلاوت قرآن شریف کرتے ہیں، راتوں کو جگ کر عبادت کرتے ہیں، صدقہ و خیرات کرتے ہیں۔ بہت سارے لوگ دوسری ریاستوں سے چھٹی لے کر عبادت کے لئے گھر آجاتے ہیں وہیں مالدار، دولتمند حضرات عمرہ پر چلے جاتے ہیں تاکہ صد فیصد عبادت کو خالص کر لے۔ لیکن محکمۂ تعلیم اساتذہ کو اللہ کی رحمت سے محروم کرنے کا سارا سامان کر رہی ہے اور ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہیں، حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے رہنما خاموش ہیں وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ معاملہ تو اساتذہ کا ہے لیکن میں ظاہر کردوں کہ یہ اساتذہ کا نہیں بلکہ مسلمانوں کا معاملہ ہے۔ جس طرح پہلے تین طلاق بل لایا گیا، 370 منسوخ کر دیا گیا، اتراکھنڈ میں مساوی سول کوڈ نافذ کر دیا گیا، شہریت ترمیمی قانون سی اے اے نافذ ہو گیا، آسام کے وزیر اعلی نے صاف کہہ دیا کے بانگلہ مسلمانوں کو آسام کی شہریت حاصل کرنے کے لئے دو سے زیادہ بچے نہ ہوں اور اب نئی بات کہ 2032 کے بعد اسمبلی میں مسلم نمائندے نہیں ہوں گے۔ یہ سب اچانک نہیں ہوا ہے۔ پہلے نبض ٹٹولا گیا پھر انگلی پکڑ کر کلائی پکڑ لی گئی ہے۔ وہی حال محکمۂ تعلیم میں ہو رہا ہے۔ رمضان المبارک کا پاک مہینہ چل رہا ہے، اردو اسکولوں کو مارننگ نہیں کیا گیا اور نہ ہی روایت کے مطابق ہندی اسکولوں کے مسلم اساتذہ کو ایک گھنٹہ قبل چھٹی دی گئی، ہمارے بھائی اور ہماری بہنیں گھر سے سیکڑوں کیلومیٹر دور ٹریننگ لینے کو مجبور ہیں۔ ہمارے رہنما یہ نہ سمجھیں کہ یہ معمولی مسئلہ ہے بلکہ یہ بڑی سازش ہے، ابھی ہماری قوت مخالفت و احتجاج کا پیمانہ چیک کرنے کے لئے تھرمامیٹر لگایا گیا ہے، اصل کھیل تو باقی ہے۔ اتنا ہی نہیں مسلمانوں کے تمام ادارے ان کے ٹارگیٹ میں ہیں۔ ہماری خاموشی کا بہت برا نتیجہ ہونے والا ہے۔ افسوس ہمارے پاس ایسے کوئی رہنما نہیں جو ظالم حکومت سے آنکھ ملا کر بات کر سکے۔ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ چاہے وہ ریاستی حکومتیں ہوں کہ مرکزی سب کا ایک ہی مقصد ہے، مسلم قیادت کو کمزور کرنا۔ محکمۂ تعلیم ہو یا کوئی اور محکمۂ سب کا مقصد ایک ہی ہے، ہمیں مسائل میں الجھائے رکھنا۔ آپ تصور نہیں کر سکتے کہ کس طرح ہمارے اساتذہ بھائی، بہن گھر سے دور دوسرے اضلاع میں رمضان کے مہینہ میں روزہ رکھ کر بڑی مشقت کے ساتھ ٹریننگ لے رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اکثر و بیشتر ٹریننگ کالج آبادی سے دور ہیں۔ صرف روزہ رکھنے کا عمل ہی کسی طرح ہو پاتا ہوگا لیکن تراویح، تسابیح، تلاوت قرآن شریف و تہجد سب چھوٹ رہا ہے۔ ہمارے مسلم اساتذہ بھی کم نہیں ہیں، وہ بھی مالی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں اس لئے ٹھگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایریئر و تنخواہ کی بات کرنے والی تنظیموں کو آنکھ بند کر کے چندے کی شکل میں موٹی رقم دیتے ہیں اور اس کا حساب بھی مانگنے سے ڈرتے ہیں، لیکن اپنی تہذیب و تمدن کی بقا کے مقصد سے اردو پڑھنے والے بچوں و اردو اساتذہ کو فطری طور پر ہونے والی پریشانیوں کے خلاف آواز بلند کرنے والی اردو تنظیمیں، خصوصاً قومی اساتذہ تنظیم بہار کو چندہ دینے میں بھی تکلیف ہوتی ہے جو ہر وقت اردو اور اردو اساتذہ کے مسئلے پر آواز بلند کرتی ہے۔ چندہ لینے والی تنظیمیں جو ہولی کے دن اسکول کھلنے اور ٹریننگ پر بھیجنے کے خلاف میڈیا میں اچھل اچھل کر بول رہے تھے اور رمضان المبارک جیسے مہینہ میں اردو اساتذہ جس میں مرد و خواتین دونوں ہیں کو مختلف اضلاع میں ٹریننگ پر بھیج دیا گیا ان کے لئے ایک لفظ بھی بولنا گوارہ نہیں کیا، اور چندہ لے کر ڈکار گئے، چندہ دینے والے بھی اپنے ساتھ دوسروں کو بھی لٹوانے میں لگے رہے، چندہ دے کر انہوں نے خود کی وفاداری کا ثبوت پیش کیا اور اردو تنظیموں سے رشتہ نہ ہونے کی ضمانت دے دی۔ عدالت کے ایک فیصلہ کے مطابق سال 2016 میں بحال قریب گیارہ ہزار اردو اساتذہ کا مستقبل داؤ پر ہے اس کے لئے بھی اردو تنظیم ہی فکرمند ہیں اور قومی اساتذہ تنظیم مثبت طریقے سے اس کام کو انجام دینے میں لگی ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر سیکنڈری ایجوکیشن و سیکریٹری بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن اگز بورڈ پٹنہ جناب عبدالسلام انصاری بھی اس سلسلے میں کافی سنجیدہ ہیں۔ قومی اساتذہ تنظیم ہیڈ ماسٹر کے لئے ہونے والے امتحان کو لے کر بھی فکرمند ہے۔ اسکولوں کا نظام ہیڈ ماسٹر کے ذریعہ ہی چلایا جاتا ہے اس لئے اردو اسکولوں میں اردو زبان کے جانکار ہی ہیڈ ماسٹر ہوں گے تو ہمارے اسکولوں کا وجود بچے گا نہیں تو نتیجہ کیا ہوگا آپ بہتر سمجھتے ہیں۔ مشہور مقولہ ہے کہ اگر کسی قوم کو برباد کرنا ہو تو سب سے پہلے اس کی زبان چھین لو، وہی سب اردو آبادی یعنی مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ مرکزی حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی بنائی اور اسے نافذ بھی کر دیا لیکن اس میں ایک بار بھی اردو کا ذکر نہیں ہوا ہے اور ہم نے خاموشی سے اسے قبول بھی کر لیا۔ اگر یہی حالت رہی تو جو تباہی برسوں میں آنی ہے وہ مہینوں اور دنوں میں آجائے گی اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ ہمارے رہنماؤں کو پوری بیداری کا ثبوت پیش کرنا ہوگا، اساتذہ تو ایک مالی کی طرح ہے جو اپنے فصل کی آبیاری کرتا ہے، اصل محافظ تو آپ ہیں۔