بارش کا ڈر
بارش کا ڈر ::: افسانہ نویس : محمد ہاشم رضا مصباحی
“کب سے نہا رہے ہو تم! کتنی دیر ہوگئی بارش میں نہاتے ہوۓ۔ بیٹا! سردی کا اثر ہوجاۓ گا، چلو اب واش روم میں جاکر کپڑے تبدیل کرلو!”حمیدہ نے شفقت آمیز لہجہ میں بیٹے شاہ زیب سے کہا۔شاہ زیب کو موسم برسات سے بڑی دلچسپی تھی،جب کبھی بارش برسنے لگتی تو اس کے چہرے پر بے اختیار خوشی کے آثار نظر آنے لگتے تھے
وہ بارش میں بھیگنے کا شوقین تھا،کبھی گھر کی چھت پر، کبھی صحن میں تو کبھی پارک میں جاکر رم جھم رم جھم برستی بوندوں سے لطف لیتا تھا تو کبھی بالکنی میں کرسی پر بیٹھ کر چائے پیتے ہوۓ روڈ پر برستی بارش کے سہانے منظر کو دیکھ کر خوش ہوتا تھا۔
“امی میں ابھی آیا”کہتا ہوا روڈ کے پار نئی کالونی میں بنے خوبصورت پارک کی طرف جانے لگا۔بیٹے! اب نہا تو لیے، مزید کتنا نہاؤگے٬خیر جلدی آنا،یوں بھی مغرب کا وقت ہونے والا ہے۔جی امی۔نرم نرم بوندیں پارک کی مٹی کو مہکاۓ ہوئیں تھیں،ہر چیز نکھری نکھری نظر آرہی تھی،ہر پتا اور پھول خوشی سے جھوم رہا تھا،ہر کلی مسکرا رہی تھی،سبزہ آنکھوں کو ٹھنڈک بخش رہا تھا۔
شاہ زیب کبھی پارک میں دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوکر دیوانہ وار گھومتا پھرتا، کبھی پارک کی نرم نرم گھاس پر آنکھیں بند کرکے بالکل ساکت و جامد بیٹھ کر بارش میں بھیگتا تھا تو کبھی کالونی کی گلیوں میں ٹہنلے لگتا تھا۔”کم بختو! کب سے کہ رہی ہوں کہ ظریف چاچا کے گھر چلے جاؤ،کسی طرح چھت سے پانی ٹپکنا تو بند ہو ورنہ پورا کمرہ تالاب بن جاۓ گا۔
“کالونی کی ایک گلی میں ٹہلتے ہوۓ ایک خستہ حال مکان سے شاہ زیب نے ایک عورت کی آواز سنی۔”نہیں امی! ہم نہیں جا رہے، آپ اکیلی پریشان ہوگی، کاش آج ابو ہوتے تو ہم اتنے پریشان نہ ہوتے، ہم بھی آپ کی مدد کریں گے۔”ایک کمسن سے بچے کی آواز آئی۔شاہ زیب اس مکان کے پلاسٹک سے بنے ٹوٹے ہوۓ دروازے کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا۔
ایک لڑکا جس کی عمر کوئی چودہ پندرہ سال کی ہوگی،اندر سے باہر آیا اور بولا: “آپ کون اور یہاں کیوں کھڑے ہیں؟””میں شاہ زیب،بس یوں ہی بارش میں ٹہلتے ٹہلتے ادھر آ پہنچا۔بارش کا موسم بھی کس قدر خوش گوار ہے نا،مجھے بارش بہت اچھی لگتی ہے ، ٹپ ٹپ بارش کی بوندوں کی آواز کس قدر دلکش اور فرحت بخش ہوتی ہے۔ تم بھی میری طرح بارش کا لطف لو نا،آج کئی دن کی جھلسا دینے والی گرمی کے بعد بارش ہوئی ہے تم بارش کا لطف کیوں نہیں لے رہے ہو۔بچے تو ویسے بھی بارش میں شور وغل مچاتے ہوئے خوب مزے لیتے ہیں، مگر تم اداس سے کیوں ہو؟۔
“ہم سب گھر والوں کو بارش اچھی نہیں لگتی، ہمیں بارش سے ڈر لگتا ہے؟ایں؟کیا کہا ڈر لگتا ہے؟شاہ زیب حیرت سے۔ہممم٬ بہت زیادہ لگتا ہے۔آپ کا نام؟” شاہ زیب نے پوچھا۔ مجھے التمش بلاتے ہیں۔التمش!چلو آؤ! اس شیڈ کے نیچیے بیٹھ کر اطمینان سے بات کرتے ہیں۔شاہ زیب نے کہا۔شاہ زیب اور التمش دونوں پارک میں بنے ایک شیڈ کے نیچیے بیٹھ گیے۔
اب بتاؤ بھائی! بارش تو قدرت کا ایک دلکش تحفہ ہے تمہیں اس سے ڈر کیوں لگتا ہے؟ شاہ زیب نے پوچھا۔ہمارا چھوٹا سا گھر ایک عدد کمرہ اور برآمدہ پر مشتمل ہے، کمرہ کی چھت کچی ہے، اب حالت خستہ ہوچکی ہے،جب کبھی زیادہ بارش ہوتی ہے تو پانی ٹپکنے لگتا ہے اور کمرہ میں جمع ہونے لگتا ہے یہاں تک کہ امی پانی نکالتے نکالتے پریشان ہوجاتی ہیں۔شاہ زیب ٹکٹکی باندھ کر اس کو دیکھتے ہوۓ اس کی باتیں سن رہا تھا۔
مجھے یاد ہے وہ خوفناک رات بھی جب مسلسل کئی دن سے بارش برس رہی تھی،زیادہ بارش ہونے کی وجہ سے کمرہ کی کچی چھت سے رس رس کر آنے والا پانی بوندیں بن کر ہمارے اوپر گرنے لگا، ہم سب گھبرا کر اٹھ گیے۔امی چھت کے شگاف بند کرنے کے لیے چھت پر جانے لگیں، اندھیرے میں سیڑھی پر چڑھتے ہوۓ پاؤں پھسل گیا جس سے امی نیچیے گرگئیں اور شدید چوٹ لگی،جب سیڑھی پر چڑھنے سے معذور ہوگئیں تو کمرہ میں چھت سے گرنے والی بوندوں کی سیدھ میں ٹب اور بالٹیاں رکھ دیں
مگر کچھ دیر کے بعد دوسری طرف سے بھی بوندیں گرنے لگیں،تو امی نے برساتی ترپال نکالا اور اس کو چاروں کونوں سے چھت کے نیچے باندھ دیا اور ایک طرف کو کچھ ڈھالان رکھا تاکہ جمع ہونے والا پانی قطار بن کر بالٹی میں گرتا رہے۔اس طرح اس رات میں امی نے چھت سے آنے والے پانی کو روکنے کی تدبیر کی۔آج پھر کئ گھنٹوں سے موسلا دھار بارش ہونے کی وجہ سے چھت سے پانی آرہا ہے امی جس کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔
جب بھی بارش کے خبری بادل گرجنے لگتے ہیں تو میرا دل اس خوف سے تیز تیز دھڑکنے لگتا ہے کہ نہ جانے اس بار ہمارے بدحال آشیاں کا کیا ہوگا۔التمش بولتے بولتے خاموش ہوگیا اور رونے لگا۔التمش التمش! کیا ہوا میرے بھائی! روتے کیوں ہو فکر نہ کرو! اللہ مسبب الاسباب ہے۔ہر دشواری کے ساتھ آسانی ہے صبر کرو! ایک نہ ایک دن آپ کا اچھا سا گھر بنے گا۔مجھ سے جو کچھ بن سکتا ہے میں آپ کی ضرور مدد کروں گا۔
شاہ زیب التمش کی کمر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ شاہ زیب اور التمش کو باتیں کرتے کرتے کافی دیر ہوگئی تھی، بارش ہلکی ہوچکی تھی،مگر بادل پھر گہرے ہورہے تھے،جو مزید بارش ہونے کی خبر دے رہے تھے،پارک میں تفریح کرنے والے بچے اور جوان سب جا چکے تھے،شام ڈھلنے لگی تھی،کالونی میں سناٹا چھانے لگا تھا،مرادآباد روڈ شام کے اندھیرے میں گم ہونے لگا تھا۔
شاہ زیب کو گھر جانے کی فکر لاحق ہونے لگی، ادھر التمش بھی اس فکر میں تھا کہ نہ جانے کچی چھت سے آنے والے پانی کو روکنے میں امی کامیاب ہوپائیں ہوں گی یا نہیں؟
“شکریہ بھائی جان! اب میں چلتا ہوں، تاکہ چھت سے آنے والے پانی کو روکنے کی کوششوں میں امی کی کچھ مدد کر سکوں۔” کہتا ہوا التمش اپنے گھر کی طرف چل دیا۔آج شاہ زیب کو پہلی بار اس بات کا گہرا احساس ہوا کہ اس خاک گیتی پر نہ جانے کتنے ایسے انسان بستے ہوں گے جو میری طرح بارش سے محبت نہیں بلکہ ڈرتے ہوں گے۔